ہمارا ایک معاشرتی المیہ یہ بھی ہے
تحریر، ،سونیا بلال
انتخاب،، عابد چودھری
*ہمارا ایک معاشرتی المیہ یہ بھی* ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے حقوق کے لئے دین کا سہارا لیتا ہے
لیکن جب بات فرائض کی آتی ہے تو اس پہلو کو جانتے بوجھتے اس کا ذکر گول کر دیا جاتا یے ، بات کا رخ ہی بدل دیا جاتا ہے ۔۔۔۔
والدین ہوں گے تو وہ آتے جاتے بیٹے کو والدین کے حقوق کی یاددہانی کرانا نہیں بھولتے ، ان کے حافظے میں وہ آیات اور احادیث محفوظ ہوتی ہیں جو ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں ۔۔۔
بیوی ہو گی تو اس کو دین کا صرف وہ پہلو یاد ہوتا ہے جس میں بیویوں کے حقوق کی نشاندہی ہوتی ہے ، ان کے ساتھ حسن سلوک کا تذکرہ ہوتا ہے ۔۔۔
اور شوہر ہو گا تو وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر دین کا صرف وہ حصہ بیان کرے گا جس میں شوہر کی اطاعت و خدمت کے فضائل موجود ہوں ۔۔۔۔
اپنی اپنی جگہ سب درست ہیں لیکن یہ طریقہ کار درست نہیں ہے
کیا یہ خیانت نہیں؟
ہمیں تو حکم دیا گیا کہ پورے کا پورا دین میں داخل ہو جاو اور آج ہم اپنے اپنے من بھاتے احکامات لے کر کھڑے ہیں جس میں ہمارے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور ان سب احکامات سے نظریں چراتے ہیں جن میں ہمارے فرائض بیان کئے گئے ہیں
اچھا معاشرہ وہاں تشکیل پاتا ہے جہاں حقوق کی جنگ لڑنے سے زیادہ فرائض کو پہچانا جائے
سوشل میڈیا ہر دیکھا جائے تو ہر کوئی اپنے فائدے کی quotations ،شئیر کر رہا ہے ، علماء کرام کے 15/20 سال پرانے بیانات نکال کر ان کا مخصوص حصہ جس میں ان کے حقوق کا ذکر ہو ، اسے شئیر کیا جاتا ہے ۔۔۔۔
خوبصورت معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں والدین بیٹے کو اپنے حقوق کے ساتھ اس کے بیوی بچوں کے حقوق احسن طریقے سے ادا کرنے کی بھی نصیحت کریں ، بیٹے کو ہر رشتے میں سرخرو دیکھنا چاہیں ،۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں ایک بیوی خود شوہر کو احساس دلائے ک صرف بیوی بچوں کو ہی نہیں بلکہ آپ کے والدین کو آپ کے وقت کی ، محبت کی ، توجہ کی ضرورت ہے ، آپ کی ذات سمیت آپ کی ہر چیز پر آپ کے والدین کا حق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں ایک مرد خود سوچے کہ اس نے رشتوں میں کیسے توازن قائم کرنا ہے کہ کسی کے حقوق میں کوتاہی نہ ہو ، پکڑ نہ ہو جائے ۔۔۔۔
جب اس طریقے پر دوسروں کے حقوق کو مقدم رکھا جاتا یے تو گھر پرسکون اور معاشرہ خوبصورت ہو جاتا ہے ۔۔۔۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمارے رول ماڈل ہیں ، ان کی زندگیوں کو پڑھا جائے ، سیکھا جائے کہ کیسے وہ ہر وقت اس فکر میں رہتے کہ کسی کے حق میں کوتاہی نہ ہو جائے ، پکڑ نہ ہو جائے ، ایثار کی اتنی مثالیں ملتی ہیں کہ تاریخ بھی حیران ہے اور آج دوسروں کے حقوق سے نظر بچا کر ہر کوئی اپنا حق مقدم سمجھ رہا ہے اور اطمینان کسی کو بھی حاصل نہیں ۔۔۔۔
اگر بات حقوق و فرائض کی ہو اور احسان و ایثار معاشرے سے نکل جائے تو معاشرہ بے جان یو جاتا ہے !!