ایجوویژن نے طلبہ و طالبات کے کیریئر کی پلاننگ کے لیے معاشرتی حالات ، تعلیمی نظام ، کام کے مواقع اور جاب مارکیٹ کو پیش نظر رکھ کر ایک قابل عمل اور جامع کیریئر پلاننگ پروگرام متعارف کروایا ہے
اس سیکشن میں پاکستان کے کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دیگر پروفیشنل تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے تمام کورسز کی مکمل پروفائل حاصل کر سکتے ہیں ۔ ان معلومات کو روزانہ اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے
ایجوویژن تازہ ، بروقت اور تیز ترین معلومات کی فراہمی پر یقین رکھتا ہے ۔ طلبہ و طالبات ، والدین اور اساتذہ کو آسان اور فوری معلومات تک رسائی کے لیے تمام تر معلومات کو آن لائن فراہم کیا گیا ہے ۔
اسلام آباد (بلال عباسی) پاکستان کی میڈیکل کی تعلیم کو ترقی یافتہ ممالک میں دی جانے والی تعلیم پر برتری حاصل ہے۔ پاکستانی ڈاکٹرز اپنی قابلیت کے باعث آج بھی دنیا بھر میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں، پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے طلباء کو سخت میرٹ کے بعد میڈیکل کالجز میں داخلہ ملتا ہے، تاہم میرٹ پر پورا نہ اترنے والے ہر سال تقریباً 3 ہزار طلباء میڈیکل کی تعلیم کے حصول کے لیے روس، یوکرین، چین، بنگلہ دیش، جرمنی، آذربائجان، قازقستا ن سمیت دیگر بیرون ممالک جاتے ہیں اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد متعدد طلبا پاکستان میں ڈاکٹر کے لائسنس کے حصول کے لیے ٹیسٹ دیتے ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والے نیشنل لائسنسنگ امتحان میں بیرون ملک سے ڈاکٹر کی ڈگری والے 92 فیصد جبکہ رواں سال 74 فیصد طلباء امتحان میں فیل ہو گئے۔پاکستان میڈیکل کمیشن کے عہدیداران اور کیریئر کونسلرز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈاکٹرز کو دی جانے والی تعلیم کا معیار بہت ہی اچھا ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر کی ڈگری کے طلباء کو تیسرے سال ہی میں ہسپتال کے وارڈ میں ساتھ رکھا جاتا ہے اور وہ سینئر ڈاکٹرز کے ہمراہ مریضوں کا طبی معائنہ کرتے ہیں، تاہم بیرون ممالک میں ڈاکٹرز کی ڈگری کے حصول کے بعد بھی طلباء کو مریضوں تک رسائی نہیں دی جاتی، یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک سے ڈگری حاصل کرنے والے طلبا کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے جس کے باعث طلباء پاکستان میں ٹیسٹ پاس نہیں کر سکتے۔ جس بچے کا پاکستان میں اپنی تعلیمی قابلیت کے باعث کسی میڈیکل کالج میں ایڈمیشن نہیں ہوتا وہ بیرون ملک سے ڈگری حاصل تو کر لیتا ہے لیکن جب لائسنس کے لیے پاکستان میں امتحان دیتا ہے تو ایک بار پھر فیل ہو جاتا ہے۔ ہر سال طلباء کا لائسنسنگ امتحان پاکستان میڈیکل کمیشن کے زیر انتظام ہوتا ہے، ’’جنگ‘‘ کو دستیاب دستاویز کے مطابق بیرون ملک سے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے والے 92 فیصد طلباء گزشتہ سال اکتوبر میں ہونے والا پاکستان میڈیکل کمیشن کا امتحان پاس نہ کر سکے، جبکہ رواں سال جنوری میں ہونے والے امتحانات میں بھی 74 فیصد طلباء فیل ہو گئے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن نے گزشتہ سال اکتوبر میں 2021 میں این ایل ای-2 (NLE-2) امتحان لیا جس میں ایک ہزار 11 طلباء نے حصہ لیا، امتحان میں 932 طلباء فیل جبکہ محض 79 طلباء نے امتحان پاس کیا۔ اس طرح محض 7.8 فیصد طلباء نے امتحان پاس کیا ۔ رواں جنوری میں بھی پاکستان میڈیکل کمیشن نے این ایل ای-2 (NLE-2) امتحان لیا، اس دوران 1 ہزار 363 طلباء نے امتحان میں حصہ لیا۔ اس دوران بیرون ملک ڈگری حاصل کرنے والے صرف 355 طلباء امتحان پاس کر سکے، اس طرح محض 26 فیصد طلباء نے امتحان پاس کیا ۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی بیرون ملک سے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے والے 90 فیصد طلباء ڈاکٹری کے لائسنس کا امتحان پاس نہ کر سکے۔ کیریئر کونسلر یوسف الماس نے بتایا کہ پاکستان میں طلباء اور والدین کی کیریئر کونسلنگ کو انتہائی ضرورت ہے۔ پاکستان میں دی جانے والی میڈیکل تعلیم دنیا میں دی جانے والی تعلیم کی فہرست میں پہلے 10 نمبروں میں آتی ہے لیکن جس طالبعلم کے پاکستان میں میڈیکل کالج میں انٹری ٹیسٹ میں ہی اچھے نمبر نہ آئے ہوں، اسے والدین ڈگری کے لیے بیرون ملک بھیج دیتے ہیں۔ ایسے طالب علموں کو بیرون ملک بھی اچھی معیاری یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ملتا ۔ کم معیار کی یونیورسٹی داخلہ دے تودیتی ہے لیکن ایسی قابلیت نہیں دے سکتی کہ جس سے طلباء پاکستان آ کر یہاں اپنی قابلیت دکھا دیں۔ پاکستان میڈیکل کمیشن پاکستان میں دی جانے والی تعلیم کے میعار کے مطابق ٹیسٹ بناتی ہے تاہم، یہاں طلباء کا کتاب کے ساتھ ساتھ وارڈ کا تجربہ ہوتا ہے جس کے باعث طلباء ٹیسٹ پاس کر لیتے ہیں تاہم بیرون ملک سے ڈگری لینےوالے کم تجربہ کے باعث یہ ٹیسٹ پاس نہیں کر سکتے۔ حکومت پاکستان یہ کر سکتی ہے کہ بیرون ملک سے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے والے طلبا کے لیے ایک خصوصی شارٹ کورس رکھا جائے جس سے وہ اپنی بنیادی تعلیم کے اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے تجربے میں بھی اضافہ کر سکیں، ایسا کرنے سے طلباء کے ٹیسٹ پاس کرنے کی تعداد بہت بہتر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹرز کے ہاتھ میں بہت قیمتی انسانی جان ہے اس لیے کم قابلیت والے طلبا کو ڈاکٹری کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ طلباء اور والدین کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر کسی بچے کی ذہنی صلاحیت ایسے نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر جیسے مشکل تعلیم حاصل کر سکے تو ایسے بچے کو محض ڈگری کے حصول کے لیے بیرون ملک نہیں بھیجنا چاہیے۔ پاکستان میں ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ دیگر نوکریاں یا اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔
Courtesy: Daily Jang
Undergraduate Admission MBA Admission Data Science Universities BS Data Science Admission Pharm.D Admission Pharm.D Universities BS Software Enigneering SE Admission BBA Admission Banking & Finance Universities Universities in Lahore Universities in Karachi Artificial Intelligence AI Admission