ایجوویژن نے طلبہ و طالبات کے کیریئر کی پلاننگ کے لیے معاشرتی حالات ، تعلیمی نظام ، کام کے مواقع اور جاب مارکیٹ کو پیش نظر رکھ کر ایک قابل عمل اور جامع کیریئر پلاننگ پروگرام متعارف کروایا ہے
اس سیکشن میں پاکستان کے کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دیگر پروفیشنل تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے تمام کورسز کی مکمل پروفائل حاصل کر سکتے ہیں ۔ ان معلومات کو روزانہ اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے
ایجوویژن تازہ ، بروقت اور تیز ترین معلومات کی فراہمی پر یقین رکھتا ہے ۔ طلبہ و طالبات ، والدین اور اساتذہ کو آسان اور فوری معلومات تک رسائی کے لیے تمام تر معلومات کو آن لائن فراہم کیا گیا ہے ۔
: محب الرحمن
میں کس کے چہرے پہ ہنسی خوشی تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں ماسک یہاں
پہلے جب ہم گھر سے نکل کر سکول جارہے ہوتے تھے تو کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ ایسا مل جاتا تھا جس کے چہرے پر"گُڈ نائٹ" کی مسکراہٹ بکھری ہوئی نظر آتی تھی جسے دیکھ کر ہمارے دل کی کلی بھی کِھل جایا کرتی تھی اور ہم بھی لبوں پر مسکراہٹ سجا کر " گُڈ مارننگ" کہہ دیتے تھے۔ دورانِ سفر کسی کی آنکھوں میں دیکھتے تو اپنی تصویر نظر آجاتی تھی۔ کلاس میں پہنچتے اور سب بچے کھلے دل اور روشن پیشانی کے ساتھ استقبال کرتے ہوئے السلام علیکم سَر! کہتے، تو دل کے سارے غم ، دکھ کے سارے پہاڑ اور رنجشوں کے سارے بوجھ بھول جاتے اور محسوس کرتے کہ ہم بھی واپس اپنے بچپن میں چلے گئے ہیں جہاں شرارتیں ہیں ، ہنسیاں ہیں ، خوشیاں ہیں ، کوئی ٹینشن نہیں کہ یہ لفظ تو اس صدی کی ایجاد ہے۔ہر لمحہ ہمارا ہے اور ہر لحظہ خوشی ہے، ناراضگی ہے تو بس کچھ دیر کے لیے ، پھر وہی دوستی ، پھر وہی کلکاریاں، وہی بے فکری کے قہقہے۔اور یوں وقت ایسا گزر جاتا جیسے اس کو پَر لگ گئے ہوں۔
اب جب نکل کر "عازمِ سکول " ہوجاتے ہیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس کرب سے گزر رہے ہیں ۔زندگی کتنی مشکل ہوگئی ہے۔ کسی طرف کوئی چہرہ نظر نہیں آتا ، ماسک ہی ماسک نظر آرہے ہوتے ہیں ، جیسے یہ انسانوں کا نہیں بلکہ بھوتوں کا شہر ہو، جہاں کوئی جانی پہچانی شکل نظر نہیں آتی۔ جہاں کسی چہرے پر لکھی ہوئی کوئی تحریر نظر نہیں آتی، جہاں کسی چہرے کے بارے میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مسکرا رہا ہے ، یا سمٹ سکڑ کر ناگواری کے اثرات سے اَٹا پڑا ہے۔ جہاں کوئی پتہ نہیں چلتا کہ ہونٹوں پر مسکراہٹوں کے پھول کِھلے ہوئے ہیں یا ہونٹ بھنچے ہوئے ہیں اور دانت پیسے جارہے ہیں۔ پہلے ہم کسی" اپنے" کو دیکھتے تھے تو اس کی آنکھوں میں اپنی تصویر نظر آجاتی تھی ، اب دیکھتے ہیں تو انہی آنکھوں میں ایک "ماسک زدہ آدم زاد" نظر آتا ہے، جس کو دیکھ کر ہم صرف محسوس کرسکتے ہیں کہ یہ ہم ہی ہوں گے اس لیے کہ "جانور" تو ماسک نہیں پہنتے، بس اسی پر ذرا شکر کر لیتے ہیں کہ ہم ابھی سلامت ہیں ، مردم شماری کے موقع پر ہمارا نام مُردوں میں نہیں بلکہ مَردوں میں لکھا جائے گا، ہمارا شمار کسی دوسری مخلوق میں نہیں ہوا ، ورنہ تو ہم اپنی شکل بھی بھول چکے ہیں۔ گھر سے نکلتے ہوئے آئینہ میں دیکھتے ہیں تو پہلے اپنا"ماسک" درست کر لیتے ہیں اس لیے "آئینہ" میں بھی اپنے آپ سے ملاقات نہیں ہوپاتی کہ ماسک پہنے ہوئے آئینہ کے پاس جاتے ہیں ۔ اس لیے آئینہ ہمیں وہی شکل دکھاتا ہے جو ہم واقع میں ہوتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ان ماؤں اور بہنوں کے لیے دل کے اندر بے اختیار عقیدت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں جو صرف اپنے رب کے حکم پر پردہ کرتی ہیں اور اتنا دکھ جھیلتی ہیں بلکہ بصد خوشی اس پابندی کو قبول کرتی ہیں۔ سوچتا ہوں کتنا بڑا اجر دیا جائے گا ان کو، کہ ایک اَن دیکھے رب کے حکم پر یہ پابندی قبول کرلی اور قبول ہی نہیں کی اس کو بصد خوشی اور رضامندی اختیار بھی کیا اور اپنی فطرت ثانی بنا لیا۔جن کا نعرہ کبھی یہ نہیں رہا کہ ہمارا جسم ہماری مرضی، جنہیں معلوم ہے کہ مٹی سے بنے ہوئے ہاتھ پاؤں پر مشتمل اس گھروندے کو کسی وقت بھی مالک مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرسکتا ہے۔ جنہیں پتہ ہے کہ سانس ہے تو آس ہے ( برائے مہربانی ساس ہے تو آس ہے ، مت پڑھیئے گا)اور نہ جانے کب یہ سانس کے اوپر نیچے ہونے کا سلسلہ درمیان میں ٹوٹ جائے کہ یہی ایک ہچکی ہی موت وحیات کی حقیقت ہے۔
زندگی جس کا بڑا نام لیا جاتا ہے
ایک معصوم سی ہچکی کے سوا کچھ بھی نہیں
اللہ کی بے شمار رحمتیں ہوں ان باپردہ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں پر ۔ ہم تو کچھ دنوں کے اندر ہی اس "پردہ بالجبر " کی پابندی سے تنگ آگئے ہیں۔ یہیں سے یہ نکتہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے کہ پردے کا حکم مردوں کے لیے کیوں نہیں ہے اور عورتوں کے لیے کیوں ہے؟۔
پہلے جب ہم مسجد میں جاتے تھے تو ٹخنے سے ٹخنہ اور کندھے سے کندھا ملا کر صف میں کھڑے ہوجاتے تھے ، واقعی محسوس ہوتا تھا کہ یہاں بندہ اور بندہ نواز کوئی نہیں ہے ، محمود و ایاز ایک ہی ہیں۔ اب دورانِ جماعت کسی سے ذرا سا پاؤں مَس ہوجائے تو وہ بیچارا سہم کر یوں سمٹ جاتا ہے جیسے اسے کسی زہریلی مخلوق نے قصداًً عمداً "ٹیکہ "لگایا ہو۔ کچھ نمازی تو مستقل اپنی جائے نماز ہی ساتھ لاتے ہیں ، میرے خیال میں انہیں یہ غلط فہمی یا خوش فہمی لاحق ہوچکی ہے کہ کہیں کسی نمازی سے بیزار ہوکر جدا ہونے والا بے تاج بادشاہ یعنی کورونا ، مسجد کی کسی صف پر خوابِ خرگوش کے مزے نہ لے رہا ہو اور جونہی میں سجدہ لگاؤں تو وہ میرے ہاتھوں کا سہارا لے کر، کہیں مستقل میرے ٹھکانے تک نہ آ جائے یا پھر میرے نتھنوں کو اپنا خواب محل سمجھ کر اس میں گھس نہ جائے۔ وائے حسرتا!!!
رمضان کا مبارک مہینہ آپہنچا ہے ، جس کی ہر افطاری عید ہوا کرتی ہے، جس کی سحری کی یادیں پھر پورے سال مٹتی نہیں ہیں، جس کی تراویح پڑھ کر دل اطمینان و سکون سے بھر جاتا ہے، کیا یہ رمضان بھی پچھلے رمضان کی طرح بے لطف و بے کیف گزر جائے گا ؟ کیا مسلمانوں کی عبادتوں پر ڈاکہ زنی کی واردات ہونے والی ہے؟ کیا حج پر قربانی دینے کی بجائے پھر حج کی قربانی دینے کا وقت قریب آپہنچا ہے؟ کیا واقعی کچھ ہونے والا ہے؟ ؟؟ کیا بحیثیت امت ہم کوئی قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں؟ !
اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس وبا کو اپنی رحمت و قدرت سے عالم انسانیت پر سے دور کردے تاکہ ہم دوبارہ انسانوں کو دیکھ سکیں، ان کے چہروں کو پڑ ھ سکیں ، ان کی آنکھوں میں اپنی "اوریجنل" تصویر دیکھ سکیں ، ان کے ہونٹوں پر سجی مسکراہٹ سے کماحقہ لطف اندوز ہو سکیں،سحری و افطاری اور تراویح کی مسرتوں سے دامن بھر سکیں، عمرہ اور حج پر انسانوں کا وہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھ سکیں جن کو دیکھنے کے لیے آنکھیں تر س گئی ہیں ۔ آمین ۔
Undergraduate Admission MBA Admission Data Science Universities BS Data Science Admission Pharm.D Admission Pharm.D Universities BS Software Enigneering SE Admission BBA Admission Banking & Finance Universities Universities in Lahore Universities in Karachi Artificial Intelligence AI Admission