ایجوویژن نے طلبہ و طالبات کے کیریئر کی پلاننگ کے لیے معاشرتی حالات ، تعلیمی نظام ، کام کے مواقع اور جاب مارکیٹ کو پیش نظر رکھ کر ایک قابل عمل اور جامع کیریئر پلاننگ پروگرام متعارف کروایا ہے
اس سیکشن میں پاکستان کے کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دیگر پروفیشنل تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے تمام کورسز کی مکمل پروفائل حاصل کر سکتے ہیں ۔ ان معلومات کو روزانہ اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے
ایجوویژن تازہ ، بروقت اور تیز ترین معلومات کی فراہمی پر یقین رکھتا ہے ۔ طلبہ و طالبات ، والدین اور اساتذہ کو آسان اور فوری معلومات تک رسائی کے لیے تمام تر معلومات کو آن لائن فراہم کیا گیا ہے ۔
: عاصم ندیم
یہ ایک بڑا ہال نما کمرا تھا۔ چکا چوند روشنی اورکوئی سو سے زائد افراد۔ کرسیوں پربرا جمان یہ افراد کچھ سننے میں محوتھے ۔ میں بھی انہی افراد میں موجود تھا۔ ہمارے سامنے دیوار پر فرش سے ذرا اونچا ایک سٹیج تھا ۔ سٹیج کے ایک کونے پر ڈائس پڑا تھا جس کے درمیان میں ایک لوگو بھی تھا۔ ایک صاحب سٹیج کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آ جا رہے تھے اور ساتھ ہی کچھ کہہ بھی رہ رہے تھے ۔ صاحب کا انداز بڑا پُر جوش تھا۔ کبھی وہ ٹھہر بھی جاتے اور دائیں ہاتھ کو اُوپر سے نیچے لا کر اپنی بات میں وزن ڈالنے کی کوشش کرتے۔ کبھی کھڑے ہو کر دونوں ہاتھوں کو اپنے سینے کے سامنے لا کر دونوں ہاتھو ں کی انگلیوں کو ملاتے اور کچھ سمجھانے کی کوشش کرتے۔ اِس سارے عمل میں ان صاحب کی زبان تھی کہ پل بھر کو بھی نہ رُکی۔ پھر وُہ کسی یورپی سائنسدان کے حالاتِ زندگی بیان کر نے لگے ۔ وہ بتا رہے تھے کہ یہ سائنسدان اسکول میں کوئی کارکردگی نہ دکھا سکا ، اُس نے بے روز گاری بھی کاٹی لیکن اپنی دھُن کا پکّا نکلا اور ایک دن کامیابی نے اُس کے قدم چُومے ۔
صاحب کی باتوں میں دلچسپی نہ ہو نے پر میں نے کن اکھیوں سے اِدھراُدھر دیکھا ۔ میراکزن میری دائیں طرف بیٹھا نظر آیا ۔ یہ وہی فرد تھا جو مجھے اِس ہال میں لایا تھا ۔ اُسےموٹیویشنلاسپیکرز کو سننے کا بڑا شوق رکھتا تھا ۔ وہ کوئی بڑا آدمی بننا چاہتا تھا، کوئی سا بھی ، بس بڑا ہونا چاہیے۔ وہ مجھے اکثر کہتا کہ میں بھی اُس کے ساتھ کسی مشہور اسپیکر کو سننے چلوں۔ آج شاید وہ مجھے پھانسنے میں کامیاب ٹھہرا تھا۔ سپیچ کی فیس بھی اُسی نے بھری تھی ۔کچھ دیر اِدھراُدھر دیکھنے کے بعد میں نے اسپیکر کی طرف دھیان کیا کہ کچھ سُن لیا جائے ،کیا معلوم کچھ کام کی بات نکل آئے۔
ہال میں یورپی سائنسدان کی کہانی اختتام پذیر تھی۔ کہانی کے اختتام پر اُن صاحب نے سوال داغا "آپ میں سے کو ن اُس سائنسدان سا بننا چاہتا ہے ؟ " وہ مختلف افراد کی طرف اشارہ کر کے پوچھ رہے تھے "آپ ، آپ؟" اور پھر اچانک انگلی میری طرف آ کر رُک گئی ، شاید انہوں نے مجھے دماغی طور پر غیر حاضر پایا تھا۔ "میں ۔ ۔ ۔ میں ، نہیں سر جی! ۔ ۔ ۔ کہاں سائنس اور کہاں میں "اُن کی بڑھی انگلی کے جواب میں میں نے فوراً کہا۔ وہ صاحب اونچی آواز میں بولے " تو جناب ! آخر آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟" میں نے اپنی خواہش کے بجائے ابّا جی کی خواہش بتائی "سر جی ابّا جی کا کہنا ہے کہ مجھے پٹواری یا پولیس والا بننا چاہیے "صاحب حیران ، پریشان اور پھر بولے " یہ کیا جواب ہوا، سائنسدان بنو ایجادات کرو، پیسے کماؤ اور قوم کی خدمت بھی ہے تو اِس میں ہے " میرے جواب سے ہی پہلے وہ صاحب پھرگویاہوئے"سٹیج پر آؤ اور وجہ بتاؤ"
جیسےتیسےسٹیج پر پہنچا اور کہا "سر جی ! پیسے تو خیر پٹواری یا پولیس والا بھی ۔ ۔ ۔ باقی آپ سمجھدار ہیں اورزمانہ شناس بھی۔ پٹواری یا پو لیس والا بننے سے اپنے آبائی علاقہ میں سماجی رُتبہ بھی ہے سر جی اور رُعب اور دبدبہ بھی " اب صاحب حیران ہوئےاوربولے " رتبہ اور یہ دبدبہ ؟" مجھے سمجھ نہ آرہی تھی کہ انہیں کیسے سمجھاؤں ۔ آخر ایک گہرا سانس لیا اور اپنی ساری قوّت جمع کر کے اتنا ہی کہہ سکا " سرجی ! لگتا ہے آپ کسی بڑے شہر سے ہیں ؛ سر جی! بھوک روپے پیسے ہی کی نہیں ، رُتبے کی بھی ہوتی ہے جسے آپ سوشل سٹیٹس کہتے ہیں اور سر جی! بھوک طاقت کی بھی ہوتی کہ سماج میں کو ن کتنا طاقت ور ہے، اپنے وسائل کو دوسروں سے کیسے بچا سکتا ہے اور دوسروں کے وسائل کیسے ہڑپ سکتا ہے "۔ صاحب خاموشی سے مجھے تک رہے تھے ، میں نے دوبارہ کہا " سر جی! سائنسدانوں کو تو چھوڑیں ہم نے تو کتنے ڈاکٹر ، انجنیئر ،مقا بلے کے امتحان میں بٹھا کر آفسر بنا دیئے ،کہ "ٹہکہ " بھی کوئی چیز ہوتی ہے" ۔
شاید میری باتیں اُن صاحب سے ہی کیا ہال میں بیٹھے اکثر کو سمجھ آنے والی نہ تھیں ،ٹھہرے جوشہری بابُو۔ لیکن یہ کیا ،وُہ صاحب مسکرائے اور بولے اچھا یہ بتاؤ تُم کیا بننا چاہتے ہو ؟"۔میں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا" میں ۔ ۔ میں ۔ ۔۔سر جی! میں تو شاعر بننا ۔ ۔ ۔ " صاحب کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی ، بولے " ہاں تو تم اپنی شاعری سے دنیا میں آگ لگا نا چاہتے ہو " ۔ خیال تو آیا کہ کہوں کہ شاعری سے تو پھول کھلتے ہیں لیکن زمانے کے حالات کے مطابق جواب دیا " سر جی! شاعری سے تو گھر میں آگ نہ لاگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔" ۔ صاحب بولے " اچھا اب شاعری نہ شروع کر دینا ، لاگےکہہ کر۔ ۔ " ۔ اب صاحب پُرجوش تھے ، دھڑلے سے بولے "تمھیں سائنسدان بننا ہے ، آغاز میں یہ معاشرہ تم پر ہنسے گا ، لیکن اِک روز ۔ ۔ ۔ ۔ " اور پھر وہ پکڑ کر مجھے جھنجھوڑنے لگے " تم کو سائنسدان ۔ ۔ ۔ ۔"۔
" نہیں سر جی ، نہیں ! ۔ ۔ ۔ میں نے سائنسدان نہیں بننا ۔ ۔ ۔ میں نے پٹواری اور پولیس والا بھی نہیں بننا ۔ ۔ ۔ پیسہ ، شہرت، رتبہ طاقت ، یہ سب کیا ہے ۔ ۔ میں نے نہیں بننا " میں زور زور سے ہاتھ ہلا رہا تھا ۔ "اُٹھنامعقول ! اسکول جانے کا وقت ہو گیا " یہ ماں کی آواز تھی ۔ میں چلّایا " ماں! تم یہاں اور یہ اسکول ۔ ۔ میں تو بی ایس سی پاس ہوں ماں !اور ابھی ایم ایس سی بھی ۔ ۔ ۔ "ماں نے اپنے مخصوص طنز بھرے لہجے میں کہا " کام کاج تو تجھے کچھ مِلا نہیں اور یہ جو پرائیویٹ اسکول میں کچھ ملا ہے پڑھانے کو تو کیا اِسے بھی ۔ ۔ ۔ " ۔ اب میری آنکھیں کھُل چکیں تھی۔ امید ہے آپ کی بھی کچھ کھُلی ہوں گی۔
Undergraduate Admission MBA Admission Data Science Universities BS Data Science Admission Pharm.D Admission Pharm.D Universities BS Software Enigneering SE Admission BBA Admission Banking & Finance Universities Universities in Lahore Universities in Karachi Artificial Intelligence AI Admission