ہمارے معاشرے میں یہ رویہ عام ہے کہ والدین اپنے بچوں کا تقابل کزنز، بہن بھائیوں یا پڑوسیوں کے بچوں سے کرنے لگتے ہیں۔ اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے: “دیکھو فلاں کا بیٹا ڈاکٹر بن گیا، تم کیا کر رہے ہو؟” یہ بظاہر ایک عام سی بات لگتی ہے لیکن حقیقت میں یہ بچے کی شخصیت کو اندر سے توڑ دیتی ہے۔ وہ اپنی خود اعتمادی کھو بیٹھتا ہے، اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے لگتا ہے اور دوسروں کی زندگی کو آئیڈیل سمجھ کر اپنی اصل طاقت کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دوسروں کو خوش کرنے کے لیے راستے چنتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جو انفرادیت اور اصل صلاحیت اس کو عطا کی ہے وہ دبی رہ جاتی ہے۔ یہ بچے پر سب سے بڑا ظلم ہے کہ اس کی اصل طاقت کو چھین کر اسے اس راستے پر ڈال دیا جائے جو اس کے لیے بنایا ہی نہیں گیا تھا۔
اگر ہم رسول اللہ ﷺ کی سیرت دیکھیں تو ہمیں ایک واضح رہنمائی ملتی ہے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت عثمان غنیؓ اس وقت عرب کے بڑے تاجر تھے۔ لاکھوں، کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کے برابر تجارت کرتے تھے۔ دوسری طرف حضرت علیؓ کے گھر میں کبھی تین دن تک چولہا نہ جلتا۔ ان کے گھر میں نبی کریم ﷺ کی لختِ جگر حضرت فاطمہؓ تھیں، اور وہ نواسے جنہیں نبی ﷺ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ لیکن کیا نبی ﷺ نے کبھی حضرت علیؓ سے فرمایا کہ:
“علی! دیکھو عثمانؓ اور عبدالرحمٰنؓ کتنی تجارت کرتے ہیں، تم سے تو دو بچوں کا پیٹ بھی نہیں بھرتا!”؟
اسی طرح حضرت علیؓ کی بہادری اور شجاعت کو سراہا ۔ بدر، احد اور خیبر جیسے معرکوں میں آپ کی تلوار دشمن پر بجلی کی طرح گرتی تھی۔ مگر کبھی حضرت عثمانؓ کو علیؓ کے ساتھ یہ کہہ کر موازنہ نہیں کیا کہ: “دیکھو علیؓ کیسا وار کرتے ہیں، کتنی جنگیں جتواتے ہیں، تم بھی ایسےجنگجو بنو۔”
ایسا کوئی واقعہ یا جملہ ہمیں سیرتِ طیبہ میں نہیں ملتا۔
اس کے برعکس نبی کریم ﷺ نے ہر صحابی کی اپنی صلاحیت کو اجاگر کیا۔ حضرت علیؓ کی بہادری اور شجاعت کو سراہا ، حضرت عثمانؓ کی حیاء اور سخاوت کو نمایاں کیا، حضرت ابو بکرؓ کے ایمان اور صدق کو ان کی سب سے بڑی فضیلت بتایا ، اور حضرت بلالؓ کے ایمان، صبر اور اذان دینے کے شرف کو ان کا اعزاز قرار دیا ۔ نبی ﷺ نے کبھی ایک کی خوبی کو دوسرے کی کمی بنا کر نہیں پیش کیا۔
یہاں والدین کے لیے ایک سادہ مگر سنہری اصول ہے:
• اگر آپ اپنے بچے کی طاقت پر فوکس کریں گے تو وہ طاقت کئی گنا بڑھ کر نمایاں ہوگی۔
• لیکن اگر آپ صرف اس کی کمزوری پر زور دیں گے تو وہ معمولی سی بہتر تو ہو سکتی ہے مگر کبھی طاقت نہیں بنے گی۔
یاد رکھیں، والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچے کی انفرادیت اور صلاحیت کو پہچانیں اور اس کی رہنمائی کریں تاکہ وہ اپنی اصل طاقت پر چل کر کامیاب ہو۔ کمزوریوں کو نمایاں کرنے اور دوسروں سے تقابل کرنے سے نہ صرف بچہ اپنی صلاحیت کھو دیتا ہے بلکہ ایک غیر فطری راستے پر چل نکلتا ہے، جہاں اس کی اصل کامیابی کبھی نہیں مل سکتی۔
اپنے بچے کو دوسروں سے موازنہ کرنے کے بجائے اس کی اپنی خوبیوں پر توجہ دیں۔ یہ ہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اپنے بچوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتے ہیں، اور یہ وہی طریقہ ہے جو ہمیں نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے ملتا ہے۔