ایجوویژن نے طلبہ و طالبات کے کیریئر کی پلاننگ کے لیے معاشرتی حالات ، تعلیمی نظام ، کام کے مواقع اور جاب مارکیٹ کو پیش نظر رکھ کر ایک قابل عمل اور جامع کیریئر پلاننگ پروگرام متعارف کروایا ہے
اس سیکشن میں پاکستان کے کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دیگر پروفیشنل تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے تمام کورسز کی مکمل پروفائل حاصل کر سکتے ہیں ۔ ان معلومات کو روزانہ اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے
ایجوویژن تازہ ، بروقت اور تیز ترین معلومات کی فراہمی پر یقین رکھتا ہے ۔ طلبہ و طالبات ، والدین اور اساتذہ کو آسان اور فوری معلومات تک رسائی کے لیے تمام تر معلومات کو آن لائن فراہم کیا گیا ہے ۔
Writer: ابن العجمی
ہر انسان روزانہ بہت سی چیزیں دیکھتا ہے. بہت کچھ سنتا ہے. لکھتا ہے. پڑھتا ہے. کھاتا ہے. بولتا ہے. پہنتا ہے. برتتا ہے. لیتا ہے. دیتا ہے. ان سب میں کچھ چیزیں اسے اچھی لگتی ہیں. کچھ بری لگتی ہیں. کچھ کو پسند کرتا ہے کچھ سے بیزاری ہوتی ہے. کچھ کو سینے سے لگاتا ہے کچھ سے نفرت کرتا ہے. کچھ چیزیں خوبصورت نظر آتی ہیں اور کچھ بد صورت دکھتی ہیں. یہ سب کچھ اس انسان کی جمالیاتی اظہارات ہیں. اسے فلسفے کی زبان میں Asthetics کہتے ہیں.
استھیٹکس یا جمالیات انسان لیتا کہاں سے ہے? اس کی بنیاد کیا ہے? اس میں اختلاف کی وجوہات کیا ہیں? اس کی معاشرتی اثرات کیا ہیں? اس تحریر میں ان سوالوں پر غور کرنے کی کوشش ہو گی. ان شاء اللہ
دنیا کے ہر انسان کی زندگی چار بنیادوں پر قائم ہے. یہ چاروں آپس میں مربوط ہیں. ایک کی تبدیلی سب کی تبدیلی ہے. ایک بنیاد کی خرابی سب کی خرابی اور ایک کی درستگی سب کی درستگی ہے. لہذا یہ چاروں ایک دوسرے سے الگ کبھی بھی نہیں ہو سکتے ہیں. سمجھنے کیلئے سورہ ابراہیم آیت نمبر 24 اور 25 پر غور کیجئے. یہاں اللہ تعالی نے شجر طیبہ اور شجر خبیثہ کی مثال دی ہے. یہ شجر انسانی تہذیب کا شجر ہے. اس کا جڑ عقیدہ ہے. اس کا تنا علم ہے اور اسکے پھل اس کی قدریں values ہیں. ویلیوز یا قدریں دو طرح کی ہیں. اخلاقی قدریں ethical values اور جمالیاتی قدریں Asthetical values. ان چاروں کو مزید سمجھنے کے لئے اس طرح بیان کر سکتے ہیں 1) الحق metaphysics 2) العلم epistemology 3) الخیر ethical values 4) الجمال Asthetical values
ان میں سب سے اہم ترین الحق یا عقیدہ ہے. اسی کی بنیاد پر باقی تینوں کو پرکھا جاتا ہے. یہ ہر تہذیب کے اندر ناقابل تغیر ہوتا ہے. اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاتا ہے. اسلام میں الحق تین ہیں. توحید, رسالت اور آخرت. اسی طرح ماڈرنٹی بھی تین ہی عقائد رکھتی ہے. آزادی, مساوات اور ترقی. ان کی وضاحت کی یہاں ضرورت نہیں کیونکہ سابقہ کئی مضامین میں ان پر تفصیلی بحث ہو چکی ہے. الحق ہی کی بنیاد پر ایک علم وجود میں آتا ہے جسے اس تہذیب کی علمیت کہا جاتا ہے. اسلام میں یہ صرف اور صرف وحی اور اس کے متعلقات ہیں جو اسلام کے الحق سے برآمد ہوتا ہے. ماڈرنٹی کا علم صرف اور صرف سائینس ہے جو اس کے عقیدے سے پیدا ہوتا ہے. یہ ممکن نہیں ہے کہ اسلام کے الحق کو ماننے والا سائینس کو علم مانے یا ماڈرنٹی کو ماننے والا وحی کو علم کا درجہ دے. اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو یقینی بات ہے کہ اس کا الحق واضح نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کا الحق تبدیل ہو چکا ہو. الحق اور العلم ایک ویلیو سسٹم کو جنم دیتے ہیں جس کے دو حصے ہیں. ایتھکل ویلیو اور استھیٹکل ویلیو. پہلے کو الخیر اور دوسرے کو الجمال کہتے ہیں. الخیر خیر و شر, حلال و حرام, جائز و ناجائز کا دائرہ ہے. اسلام میں یہ فقہ کا موضوع ہے. الجمال حسن و قبح, خوبصورتی و بد صورتی, پسند و نا پسند, مزیدار و بد مزہ, خوشی و غم, محبت و نفرت وغیرہ کا دائرہ ہے.
ان چاروں میں سے عملی زندگی میں برتاو کے اعتبار سے پہلے تینوں کا حصہ بمشکل ہی دس فیصد ہے. جبکہ ہر انسان اپنی زندگی میں نوے فیصد صرف آخری چیز یعنی الجمال کو برتتا ہے. اسلئے ہم پوری شرح صدر سے کہہ سکتے ہیں کہ جس کا الجمال صحیح نہ ہو اسکی پچھلی تینوں میں سے کوئی ایک چیز کا بھی صحیح ہونا اصلا ناممکن ہے. الجمال کو حسن beauty یا ذائقہ taste بھی کہتے ہیں. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ جمیل و یحب الجمال اللہ خوبصورت ہے اور وہ خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے.
اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی حسن و جمال کا منبع ہے. اس حسن کا کائنات میں سب بڑا مظہر محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت ہے. حسن صرف صورت ہی میں نہیں ہوتا بلکہ ہر چیز میں حسن پایا جاتا ہے. مثلا کلام میں حسن, ادب میں حسن, لباس میں حسن, برتاو میں حسن, آواز میں حسن, کھانے میں حسن, مکان میں حسن, سواری میں حسن, انتخاب میں حسن, مسکرانے میں حسن, ملاقات میں حسن وغیرہ وغیرہ. لہذا جب ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حسین سمجھتے ہیں تو ان تمام حوالوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسین تسلیم کر رہے ہوتے ہیں. اب جو کوئی اس حسن کو پسند کر کے اسے اختیار کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ احسان کا مقام پائے گا. ایسے شخص کو محسن کہا جائے گا. قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر محسنین کا ذکر آیا ہے. مثلا و کذالک نجزی المحسنین. اسی طرح حدیث جبریل میں جس احسان کا ذکر ہے. اس سب میں اوپر بیان کردہ مفہوم بھی شامل ہے.
ہمارے ہاں عمومی مغالطہ یہ ہے کہ لوگ الجمال کو دین نہیں سمجھتے. دین صرف عقیدہ, علم اور کچھ حلال و حرام کو سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں دین زندگی کے نوے فیصد حصے سے فارغ ہو جاتا ہے. یاد رکھئے اسلام ایک کامل تہذیب ہے. تہذیب اصلا الجمال ہی کا اظہار ہے. الجمال کی دو قسمیں ہیں
▪ فطری natural/objective
▪ اختیاری man made/subjective
ان دونوں میں الجمال مثبت بھی ہوتا ہے اور منفی. مثلا ایک بے پردہ خوبصورت عورت کو ایک مومن دیکھے گا تو وہ اس کے حسن کو منفی ویلیو دے گا اور نگاہ کو فورا وہاں سے ہٹائے گا. ایون ریڈلی کو سابقہ امارت اسلامیہ افغانستان کے اہلکاروں نے جب گرفتار کیا تو وہ پردے میں تھی. اس نے اس وقت ایک دم اپنا چہرہ کھولا تو امارت اسلامیہ کے بندے ایسے دوڑے جیسے ان پر کوئی حملہ ہو گیا ہو. پھر اپنی خواتین کو بھیجا اس عورت سے معاملات کرنے کیلئے. یہاں اسلام کے ان بیٹوں کا ایک خوبصورت مغربی عورت کو دیکھ کر بھاگ جانا ان کی جمالیاتی ذوق کا اظہار تھا. انہوں نے اس عورت کے حسن کو منفی ویلیو دی ہے. جتنی زیادہ وہ حسین تھی اتنی تیزی سے ان اللہ والوں نے اپنے آپ کو اس سے دور کیا. اس مثال میں اس عورت کا حسین ہونا فطری جمال ہے. مگر مجاہدین کا اسے دیکھ کر بھاگ جانا انکا اختیاری الجمال ہے. اسی طرح ہسپتال میں کچھ زخمی مجاہدین علاج کی غرض سے داخل ہوئے. وہاں خاتون نرس جب انکو انجیکشن لگانے پہنچی تو انہوں نے شور مچا دیا. مقامی زبان نہیں آتی تھی. مگر نرس کو اپنے قریب آنے نہیں دیا. ان کے لئے ایک نامحرم عورت کا چھو لینا بے انتہائی کریہہ منظر تھا. انہیں اس منظر کے مقابلے میں مرنا گوارا تھا. یہ ان کا الجمال تھا. جو ان کے الحق اور العلم سے نکلا تھا. اس کے مقابلے میں لاکھوں کروڑوں مسلمان علاج و معالجہ کے نام سے عورتوں کی آمد اور ان کے ہاتھوں انجیکشن لگوانے کو کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھتے تو اسکا مطلب یہ ہے ان کا الحق اور العلم کمزور ہو چکا ہے بلکہ کچھ نہ کچھ بدل بھی چکا ہے. عورت کا جمال ایک مسلمان کی نگاہ میں اس کا پردہ ہے. جبکہ یہی پردہ ایک ماڈرن شخص کے نزدیک انتہائی قبیح ہے. یہی وجہ ہے مغرب مسلمانوں کی نماز و روزے کو تو برداشت کرتا ہے مگر عورت کا پردہ ان کیلئے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے. یہ ان کی جمالیاتی ذوق کا نتیجہ ہے.
اسی طرح ہر تہذیب اپنی جمالیات تخلیق کرتی ہے اور اس کی شناخت اسی پہلو سے ہی ہوتی ہے. اسلام ایک تہذیب ہے اس کا اپنا الجمال ہے. ٹوپی پگڑی, ڈاڑھی, کھلا لباس, بیٹھ کے کھانا کھانا, ایک ہی برتن میں مل کے کھانا, عورت کا پردہ, مرد و عورت کے اختلاط کا نہ ہونا, پبلک مقامات پہ عورتوں کا نظر نہ آنا, سادہ مکانات, سادہ طرز زندگی وغیرہ اسلام کا الجمال ہے. جبکہ شیو کرنا, تنگ لباس, ننگے سر, کھڑے ہو کر یا کرسی پر کھانا پینا, عورتوں کی بے حجابی, ہر کام اور مقام پر مرد و عورت کا اختلاط, پرتعش زندگیاں, ہوٹلنگ, ٹورازم, بل بورڈز, تصویریں, ڈرامے, میوزک, فلمیں, بڑی بڑی ڈگریاں, سپورٹس وغیرہ وغیرہ ماڈرنٹی کے الجمال ہیں.
اختیاری الجمال میں جو چیزیں انفرادی سطح پر اسٹیبلش ہوتی ہیں وہ آرٹ ہے جبکہ جو چیزیں اجتماعی سطح پر قائم ہوتی ہیں وہ تمدن یا کلچر ہے. اسلئے یاد رکھئے آرٹ اور کلچر کے پیچھے اسکی اپنی علمیت اور اسکا اپنا الحق لازمی ہو گا. مثلا تصویر و پینٹنگ کے آرٹ کے پیچھے اسلام ہرگز نہیں ہوگا. اس کے پیچھے لازما مغرب کا عقیدہ و علم کام کر رہا ہو گا. اسی طرح رقص ہندو عقیدہ و علم کا جمال ہے. مرثیہ و ماتم روافض کا جمال ہے. لہذا ان چیزوں سے اسلام کبھی بھی برآمد نہیں ہو گا بلکہ وہی تہذیب برآمد ہو گی جس کے یہ جمالیات ہیں.
چند چیزیں ایسی ہیں جو اسلامی جمالیات کے نمائندہ تصور کئے جاتے ہیں. مثلا عبادات و مناجات قراءت خطاطی شاعری تصوف اسی طرح کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں ماڈرن جمالیات کے نمائندہ تصور کئے جاتے ہیں. مثلا تصویر موسیقی سپورٹس/ گیمز ٹیکنالوجی
ماڈرنٹی کے ان جمالیاتی اقدار کو استعمال کر کے اسلام کی خدمت کے زعم میں مبتلا حضرات کو اس تناظر سے بھی اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لینا چاہیئے. جمالیات آپ مغرب کی اسٹیبلش کریں اور دین اسلام کا مضبوط ہو. یہ ناممکن ہے. اسلام کو مضبوط کرنے کیلئے تو اسلام کے جمالیات کو مضبوط کرنا ہوگا. یہ بھی یاد رکھیں, عقیدہ و الحق سے متاثر ہو کر اسلام کو اختیار کرنے والے سابقون الاولون یا اصحاب المقربون ہیں جو پہلوں میں زیادہ اور بعد والوں میں کم ہیں. سورہ واقعہ کا ابتدائی حصہ ملاحظہ فرمائیں. بعد والوں میں زیادہ تعداد جمالیات سے ہی متاثر ہو کر اسلام کو اختیار کرنے والوں کی ہوتی ہے. گو کہ اصحاب المقربون کی تھوڑی تعداد یہاں بھی ہو گی جو جڑ یعنی الحق کو ہی پہچان کر دین میں آئیں گے. مگر زیادہ لوگ جمالیات سے ہی متاثر ہوں گے. ایک دفعہ اس رستے سے اسلام میں داخل ہوں تو بعد میں بندہ الحق, العلم اور الخیر تک بھی پہنچ جاتا ہے اور اسکا اسلام اس طرح بھی مکمل ہو جاتا ہے. اسی طرح ماڈرنٹی میں بھی تقریبا سارے لوگ اس کے جمالیات کے اسیر ہو کر داخل ہوتے ہیں. (عقیدے سے داخل ہونے والے بہت ہی کم ہونگے.) مگر بعد میں وہ شخص خالص ماڈرن ہو ہی جاتا ہے اور اسکا الحق, العلم اور الخیر بھی ماڈرن ہو جاتا ہے. یہی وجہ ہے تصویر, سپورٹس, سیاحت اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دعوت و تبلیغ کی جتنی بھی کوششیں ہمارے مسلمان بھائیوں نے کی ہیں ان تمام سے لا محالہ ماڈرنٹی ہی مضبوط ہوئی ہے اور یہ شجر خبیثہ اب ہمارے اپنے گھر, مدرسہ اور مسجد تک میں اگ چکا ہے.
الجمال ہمیشہ "تحیر" پیدا کرتا ہے. یہ انسان کو مبہوت کر دیتا ہے. جس سے تاثر لئے بغیر انسان رہ نہیں سکتا. یہی تاثر اس کے عقیدہ و علم تک میں تغیر لے کے آتا ہے. یہ اقداری qualitative بھی ہوتا ہے اور مقداری quantitative بھی ہوتا ہے. اسلامی الجمال کو مارڈرن ٹاون پلاننگ نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے. اسلامی تہذیب میں تصویر کبھی نہیں آئی. بلکہ ہماری تہذیب میں ہمارے شعراء اپنے اشعار کے ذریعے تخیلاتی تصویر خوب دکھایا کرتے تھے. رومیوں نے اپنی جمالیات عمارتوں میں ظاہر کیں. آج بھی روم میں اس کے بے شمار مظاہر موجود ہیں. ہزاروں سال بعد بھی ان کی عمارتیں کھڑی ہیں. روم میں چار پانچ سو سے زیادہ مونومنٹس موجود ہیں. مسلمانوں نے اندلس میں عمارتیں خوب کھڑی کیں جو آج تک نظر آتی ہیں مگر وہاں اسلام کہیں نظر نہیں آئے گا. وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اسلامی جمالیات کی بجائے رومی جمالیات کو پروموٹ کیا تو بالآخر تہذیب بھی وہی غالب ہوئی.
الجمال کو بدلنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو دیکھنے والی آنکھ تبدیل کرو. لارڈ کرزن نے 1835 میں برٹش پارلیمنٹ میں کہا کہ میں ہندوستان کے طول و عرض میں گھوما ہوں مجھے یہ لوگ کہیں بھی کمتر نظر نہیں آئے یا ہم ان سے کہیں بھی بہتر نہیں ہیں. اب یہ ہمارے تابع کیسے ہونگے اس کے لئے ہمیں ایک ایسا نظام تعلیم لانا ہوگا جس سے گزر کر انکی نئی نسل ہر معاملے میں ہمیں اچھا سمجھے. مطلب یہ کہ آنکھ بدلنے کا سب سے موثر ذریعہ تعلیم ہے. اسی لئے انگریز نے برصغیر میں آ کر پہلے اپنا علم دیا جس نے یہاں کے جمالیات کو تبدیل کر دیا جس نے بعد میں سب کچھ ہی بدل دیا. اسی لئے ہمارے پرانے بزرگ اگر انگریزی زبان, انگریزی لباس, انگریزی تعلیم وغیرہ سے نفرت کرتے تھے اور اس نفرت کو آگے منتقل کرنے کی کوشش کرتے تھے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ یہ سب انگریز کے الجمال ہیں اگر ان کو راہ مل گئی تو تین نسلوں بعد بات الحق تک پہنچ جائے گی اور واقعتا ایسا ہوا کہ انکے نظام تعلیم سے نکلنے والا جب انکا الجمال لیکر آگے بڑھا تو اس کا عقیدہ آزادی, مساوات اور ترقی ہی ٹھہرا. سائنس ہی انکا العلم بنا. یہ ہمارے ان بزرگوں کو تو سمجھ آ گئی جنہیں آج کا ماڈرن شخص تنگ نظر و دقیانوسی سمجھ رہا ہے اور خود اپنا عقیدہ تک بدل بیٹھا ہے مگر اس کو پتہ ہی نہیں چل رہا ہے. اللہ ہمارے ان بڑوں کو جزائے خیر عطا فرمائے جن کی دور اندیشی کی وجہ سے ہندوستان سپین نہیں بنا.
Undergraduate Admission MBA Admission Data Science Universities BS Data Science Admission Pharm.D Admission Pharm.D Universities BS Software Enigneering SE Admission BBA Admission Banking & Finance Universities Universities in Lahore Universities in Karachi Artificial Intelligence AI Admission